Sunday, December 14, 2014

ہم جہالت پسند مسلمان

پچھلے دنوں ڈینمارک میں اس خاندان کے مقدمے اور سزا کا پڑھا جنہوں نے ایک لڑکی کو ان کی منظوری کے بغیر شادی کرنے پر قتل کر دیا تھا۔

یہ لوگ پاکستانی نژاد تھے۔ لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی ایک افغان سے اور شادی کے دو ہی دن بعد لڑکی کے اپنے بھائی نے دونوں پر گولی چلا دی۔ لڑکی ہلاک ہو گئی جبکہ اس کے شوہر کے پیٹ میں گولی لگی۔




غزالہ نامی اس لڑکی کا باپ پچھلے پینتیس سال سے یورپ میں رہ رہا تھا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان پینتیس سال میں اس نے کیسے کچھ نہیں سیکھا کہ مہذب معاشرہ کیا ہوتا ہے، یا انسانی حقوق کیا ہیں یا پھر قانون و انسانیت کیا ہے۔


مغربی ممالک میں کسی جرم یا دہشت گردی کے واقعہ کی خبر آتی ہے تو میں ڈرتے ڈرتے پڑھتی ہوں کہ کہیں پھر اس میں کوئی پاکستانی یا پھر کوئی مسلمان ملوث نہ ہو۔ اور عموماً وہی ملوث ہوتے ہیں۔

اب لندن پر بم حملے کرنے والے تین افراد کو دیکھ لیں۔ اچھے پاکستانی و مسلمان گھرانوں سے ان کا تعلق تھا، ماں باپ نے برظانیہ آکر محنت کی اور اپنا مقام بنایا۔ لیکن ان نوجوانوں نے کسی کے لیے کیا کیا؟ اگر ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے خلاف زیادتیاں ہو رہی ہیں یا پھر عراق میں جنگ ایک غلط عمل ہے تو پھر اس سب کے خلاف وہ کوئی مہذب احتجاج بھی کر سکتے تھے۔ کیا مہینوں تک منصوبہ بندی کر کے بعد تباہ کن بم حملے ہی ضروری تھا؟

ظاہر ہے کسی غیر ملک میں جب آپ منتقل ہوتے ہیں تو یہ پریشانی رہتی ہے کہ آپ ایک غیر معاشرے میں اپنے بچوں کی پرورش کس طرح کریں گے، اور اپنی ثقافتی اور مذہبی رواییات کس طرح برقرا رکھیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جہالت اور بربریت پر اتر آئیں۔

ہم لوگ کہیں جا کر اچھے شہری کیوں نہیں بن سکتے؟ قانون پسند معاشرے کے اصولوں کو ہم رد کیوں کرتے ہیں؟ اور اسلام کا ہم غلط استمعال کیوں کرتے رہتے ہیں؟ مذہب کے نام پر ہم ’حلال گوشت، حلال کھانا ‘ کرتے پھریں گے لیکن جھوٹ بولنے پر نہیں کترائیں گے۔ میرے نزدیک تو جھوٹ بولنا غیر حلال اشیاء کھانے سے کہیں زیادہ بری چیز ہے۔

سماجی اور معاشرتی رویّوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ دو قسم کے معاشرے ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے ’گِلٹ کلچر‘ جس میں لوگ فیصلے اپنے صحیح /غلط اور اچھے/برے کے تصور کی بنا پر کرتے ہیں۔ وہ اپنے اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ دوسرا ہوتا ہے ’شیم کلچر‘ جس میں لوگ اچھے برے کے تصور پر فیصلہ نہیں بلکہ ’لوگ کیا کہیں گے‘ کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ سماجی بہتری کا نہیں سوچتے اور عموماً اپنے لیئے سواب کمانے میں لگ جاتے ہیں اور اپنے ہی ’مقام‘ کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اسلام ہمیں اچھے برے کی تفریق سکھاتا ہے لیکن ہم تو روایت اور جہالت کے شکار رہنا پسند کرتے ہیں۔

اگر عقل استعمال کریں اور انسانی ہمدردی کو ترجیح دیں تو ہم نیکی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن ہم تو جاہل ہی رہے۔ ہم ایسے ہیں کیوں؟
عنبر خیری

No comments:

Post a Comment