Thursday, April 28, 2011

عورت کی آدھی گواہی

اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے انصاف کے ساتھ لکھنا چاہئے۔ اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے۔ لہٰذا وہ لکھ دے اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے اﷲ سے ہی خوفزدہ رہنا چاہئے جو اس کا نشوونما دینے والا ہے۔ اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے کارندے کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اپنے لوگوں میں سے دو مَردوں کو گواہ بنا لو۔ پھر اگر دونوں مرد میسرّ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔

یہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی وہ لوگ جو گواہی کے لئے قابلِ اعتماد ہوں) تاکہ ان دو میں سے ایک کسی تفصیل میں اُلجھ جائے یعنی confuse ہو جائے تو دوسری اُسے دُرست بات کی آگاہی دے دے۔ اور گواہوں کو جب بھی گواہی کے لئے بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی معیاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو۔ تمہارا یہ دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر ہے۔ اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو جا ¶ سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں۔

اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ مگر (یاد رکھو کہ) نہ ہی لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو۔ اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری طرف سے (نازل کردہ) حکم کو توڑ کر اﷲ کی طرف سے نشوونما دینے والے قوانین کی حفاظت سے نکلنا ہو گا۔ اس لئے تباہ کن نتائج سے بچنے کے لئے اللہ کے احکام و قوانین سے چمٹے رہو۔ یہ تمہارے لئے اﷲ کی تعلیم ہے اور اﷲ وہ ہے جسے ہر شے کا مکمل علم ہے۔

(نوٹ: گواہی کے سلسلے میں ایک گروہ اس آیت کے حوالے سے جہاں ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی ہے سے مراد عورت کی آدھی گواہی لیتا ہے جبکہ آیت کا سیاق و سباق اور اس کا تجزیہ ان کی اس رائے کو ثابت نہیں کرتا۔ کیونکہ سوال یہ ہے کہ اﷲ نے گواہی کے لئے ایک مرد کی بجائے دو مرد کیوں رکھے ہیں؟یعنی کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ مرد کی گواہی آدھی ہے؟ اس کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر ایک مرد بات کی تفصیل میں الجھ کر confuse ہو جائے تو دوسرا آگاہی دے دے یا ایک انکار کر دکر دے تو دوسرا ثابت کر دے یا کوئی بھی اور وجہ جو اس معاملے کو درست رکھنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ اور معاملہ اگر درستگی سے ہٹتا ہے تو ایک مرد دوسرے مرد کے ساتھ مردوں سے منسلک بعض عوامل کی بحث و تمحیص میں الجھ سکتا ہے جس میں عورت ساتھ نہیں دے سکتی اور یوں دو مردوں کے درمیان مرد کا اپنا تقدس و وقار برقرار رہتا ہے۔ اس طرح تفصیل میں الجھ جانے کے عوامل میں نسوانی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کے متعلق عورت ہی عورت کے ساتھ بحث و تمحیص کر سکتی ہے اور دو عورتوں میں اس طرح عورت کا وقار قائم رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی قطعی طور پر آدھی نہیں بلکہ عورت کے تقدس و وقار کے لئے ہے۔

دوسرے یہ کہ ساری آیت اور سارے قرآن میں کہیں پر یہ نہیں کہا گیا کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی ہے۔ اس آیت 2/282میں لفظ ”تضل“ استعمال ہوا ہے جس کا عام طور پر بھول جانا مطلب لیا جاتا ہے جو کہ کمزور مطلب ہے کیونکہ اس کا مادہ (ض ل ل) ہے۔ اور یہ وہی لفظ ہے جو قرآن میں کئی بار استعمال ہوا ہے اور اس کے بنیادی مطالب ہیں: حیرت، سرگرداں پھرنا، سایہ، Perplexed، confused، راہ گُم کر دینا، رائیگاں ہونا۔ البتہ کسی بات کے حوالے سے ہٹ جانا یعنی confuse ہو جانا اور علماءنے ذہن کی اِسی کیفیت سے بھول جانا یا یاداشت کا کھو جانا مطلب لے لیا ہوا ہے۔ بہرحال، سیاق و سباق کے حوالے سے اس آیت کے متعلقہ ترجمے میں” تفصیل میں confuse ہو جانا“ والا مطلب درج کیا گیا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ایک وقت میں صرف ایک عورت کی ہی گواہی کے لئے حکم ہے دوسری تو صرف اس لئے ہے کہ اگر کسی وجہ سے خاص کر کسی نسوانی حالت و کیفیت کی وجہ سے لین دین کی تفصیل میں کنفیوژن پیدا ہو رہی ہو تو دوسری اس کی مدد کر دے نہ کہ دوسری عورت گواہی کے لئے ہے۔ اور یہ حکم صرف قرض کے لین دین کے معاملات سے متعلق ہے دیگر کسی معاملے کے لئے یہ حکم نہیں ہے اور آخری نبی کی ساری حیات طیبہ سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے کسی مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی ایک عورت کی گواہی کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہو کہ کیونکہ عورت کی قرآن میں گواہی آدھی ہے اس لئے قبول نہیں کی جائے گی۔ اس سلسلے میں کوئی ایسی حدیث ہو بھی تو وہ نہایت قابلِ تحقیق ہے کیونکہ قرآن کی وحی کے احکام میں حضرت محمد نہ تو اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ کمی کر سکتے ہیں، 69/43-47 لہٰذا، اس سلسلے میں ایسی حدیث یقینا ضعیف حدیث قرار پائے گی جو نہ ہی تو محمد کے کسی عملی مقدمے کے فیصلے سے ثابت ہو اور نہ ہی قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہو جس میں یہ ارشاد کیا گیا ہو کہ عورت کی گواہی کو آدھا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ محمد سے بعد میں آنے والوں میں سے کسی نے بھی اگر عورت کی گواہی کو آدھا قرار دیا یا کسی مقدمے میں اسے آدھا قرار دے کر مسترد کر دیا تو یہ اُس کی ذاتی رائے یا ذاتی عمل ہے جس کا قرآن کی وحی اور محمد کی سیرت سے کوئی تعلق نہیں۔ 

بہرحال، قرآن نے کسی الجھن، کنفیوژن یا اس طرح کی کشمکش سے نکلنے کے لئے ایک وقت میں ایک گواہی کے ناقابلِ خطا ہونے کے لئے کسی ایک دوسرے کو مدد و سپورٹ کے لئے رکھنے کا فارمولا دے کر انسانی لین دین کے معاملات کی گواہی کو بے خطا کر دیا ہے جیسے کہ بیسویں و اکیسویں صدی کی دنیا میں لین دین کے معاملات میں اور زمین کے پلاٹ کی ٹرانسفر کے معاملات میں ایک گواہی کی مدد و سپورٹ کے لئے کیمرے اور ویڈیو کو شامل کرلیا گیا ہے تا کہ اس آیت 2/282کے حکم کا اصل مقصد کہ ”گواہی بے خطا اور غلطی سے پاک ہونی چاہیے“ کو بہتر طور پر حاصل کیا جا سکے)۔

No comments:

Post a Comment